شادی کے بعد، جب میں نے گاؤں کا سفر شروع کیا، دل میں بے شمار خیالات اور احساسات کی لہر دوڑ رہی تھی۔
دلہن بن کے رخصت ہونا، ایک نیا باب کھولنا، مگر ساتھ ہی خوف بھی تھا۔ دس گھنٹے کا لمبا سفر، بس میں بیٹھے ہوئے، خاموشی سے میں ان تمام لمحوں کو اپنے ذہن میں سماتی جا رہی تھی۔ دل میں ایک کرب تھا کہ شاید یہ نیا مقام، نئے لوگ، اور نئی زندگی کبھی مجھے خوشی نہ دے سکے۔
سرالی گاؤں پہنچنے پر، مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا، جہاں سب کچھ نیا تھا۔ ہر چیز سے میری غیر موجودگی کی گونج سنی جا سکتی تھی۔ کمرے میں گھنگھرو کی آواز تھی اور درختوں کی سرسراہٹ، لیکن میرے اندر کوئی آواز نہیں تھی۔ میں ان تمام تر تبدیلیوں کو جذباتی طور پر ہضم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر کچھ ایسا تھا جو دل میں گہرے غم اور افسردگی کا باعث بن رہا تھا۔
میرے شوہر ایک کسان تھے، بہت محنتی اور سادہ دل انسان، مگر اس سادگی میں ایک عجیب سا فاصلہ تھا۔ میں انہیں جاننے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن دل میں بے چینی کا ایک سمندر تھا۔ میں ایک شہر کی لڑکی تھی اور اس نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا مشکل تھا۔
میرے دل میں سوالات کی ایک لامتناہی سلسلہ چل رہا تھا کہ کیا یہ فیصلہ صحیح تھا؟ کیا میں اس گاؤں کی زندگی میں خوش رہوں گی؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا میں اپنے شوہر کے ساتھ محبت اور سکون کا رشتہ قائم کر پاؤں گی؟
وہ لمحے، جب میں کمرے میں اکیلی بیٹھ کر آنکھوں میں آنسو چھپاتی، میرے دل کا دکھ بڑھتا گیا۔ مگر ایک لمحے میں، جب میرا شوہر میری طرف آیا، اس کی آنکھوں میں ایک محبت بھری مسکراہٹ تھی جو میرے دل کے سیاہ گوشوں کو تھوڑی روشنی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
میرے دل میں امید کا ایک دیا جلنے لگا تھا، کہ شاید وقت کے ساتھ، میں اس نئی زندگی کو قبول کر سکوں گی، اور اپنے شوہر کے ساتھ ایک نیا سفر شروع کروں گی
0 Comments