بھائی کی وفات کے بعد گھر کا ماحول سوگوار ہو گیا تھا۔ اماں ہر وقت آنسو بہاتی رہتیں اور ابا نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ بھا بھی، جو ہمیشہ چہکتی رہتی تھیں، اب ہر وقت غم کے سمندر میں ڈوبی رہتیں۔ لیکن سب سے زیادہ بوجھ میرے دل پر تھا کیونکہ میں اپنے بھائی کے بغیر ادھورا محسوس کرتا تھا۔
کچھ دن بعد، ابا نے خاندان کے بڑے بزرگوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ بھا بھی کا نکاح بڑے بھائی سے کر دیا جائے تاکہ گھر کا نظام اسی طرح چلتا رہے۔ مگر بھا بھی نے ایسا فیصلہ کیا جس نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے بڑے بھائی کے بجائے میرا نام لیا اور کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔ میں عمر میں ان سے چھوٹا تھا اور یہ بات میرے لیے ناقابلِ قبول تھی۔
شادی کا فیصلہ اور میرا انکار
میرے انکار کے باوجود، خاندان کے دباؤ اور حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر، میری شادی بھا بھی سے کر دی گئی۔ اس فیصلے نے میرے دل میں بھا بھی کے لیے نفرت پیدا کر دی۔ میں خود کو قید میں محسوس کرنے لگا۔ میں سارا دن گھر سے باہر رہتا اور رات کو صوفے پر سونے لگتا تاکہ ان کے قریب نہ جانا پڑے۔
ایک غیر متوقع رات
ایک رات جب میں صوفے پر لیٹا ہوا تھا، وہ میرے پاس آئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک لال کپڑے میں لپٹی کوئی چیز تھی۔ انہوں نے اسے میرے سامنے رکھ دیا اور چپ چاپ کھڑی رہیں۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو دل دہل گیا۔ وہ چیز میرے مرحوم بھائی کی گھڑی تھی، جو وہ ہمیشہ پہنا کرتے تھے۔
انہوں نے آہستہ سے کہا، "یہ گھڑی مجھے ان کی یاد میں ہمیشہ سکون دیتی تھی، لیکن آج میں چاہتی ہوں کہ یہ تمہارے پاس ہو۔ شاید یہ تمہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے۔" ان کے الفاظ اور آنکھوں کی نمی نے میری ساری نفرت کو آنسوؤں میں بہا دیا۔
نفرت کا خاتمہ
اس رات میں نے پہلی بار ان کی قربانیوں کو محسوس کیا۔ وہ میری دشمن نہیں تھیں بلکہ وہ بھی اتنا ہی غم سہ رہی تھیں جتنا میں۔ انہوں نے صرف خاندان کی عزت اور بھائی کے بچوں کا مستقبل محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ قبول کیا تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنے دل سے نفرت نکال دی اور ان کے ساتھ ایک نئی شروعات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات ہمارے رشتے کی بنیاد بدل گئی اور میں نے دل سے ان کا ساتھ دینے کا
وعدہ کر لیا۔
0 Comments