کہانی کا موضوع یہ ہے اگر عورت ایماندار ہو تو دنیا میں کسی بھی قسم کی برائی سے بچ سکتے ہیں

 حب میرا شوہر مر گیا تو میرے چار بچے تھے



میری دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔ میرے شوہر کا جنازہ اٹھا تو ایسا لگا کہ میرے وجود کا ایک حصہ بھی ساتھ دفن ہو گیا۔ میرے چار چھوٹے بچے میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے تھے، جن کی بھوک اور ضروریات میری کمزور کمر پر ایک پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑی تھیں۔


محنت مزدوری کی، گھروں میں جھاڑو پونچھا کیا، لیکن بچوں کے معصوم چہروں سے بھوک کے آثار کم نہ ہوئے۔ شام کو جب گھر لوٹتی تو میری ہتھیلیاں خالی ہوتیں، اور بچوں کی آنکھوں میں سوال ہوتے جن کا جواب میرے پاس نہ تھا۔


محلے کا ایک امیر آدمی، نام نہاد "خیر خواہ"، اکثر میرے حالات کا ذکر کرتا۔ ایک دن اس نے کہا، "تمہارے بچوں کے لیے میں ہر مہینے پیسے دے سکتا ہوں، اگر تم رات کو آدھے گھنٹے کے لیے میرے پاس آیا کرو۔"

میری خودداری اور غیرت چیخ اٹھی، مگر بچوں کی بھوک نے مجھے مجبور کر دیا۔ میں کئی دن تک اپنی عزت اور بچوں کی بھوک کے درمیان جنگ لڑتی رہی۔ آخر کار، ہار مانتے ہوئے میں نے اس کی بات قبول کر لی۔


رات کے اندھیرے میں جب سب سو رہے تھے، میں اپنے آنسو چھپاتے ہوئے اس کے گھر گئی۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ آدمی ایک خوشبو سے مہکے کمرے میں میرا منتظر تھا۔ جیسے ہی میں اندر گئی، اس کی نظروں میں ایک عجیب سی ہوس تھی جو میرے وجود کو نوچ رہی تھی۔


لیکن جیسے ہی میں نے قدم رکھا، کمرے کے اندر ایک اور منظر نے مجھے ششدر کر دیا۔ وہاں ایک جوان لڑکی پہلے سے بیٹھی تھی، اس کی آنکھیں خوف سے سرخ تھیں اور چہرہ زرد۔ وہ کانپتے ہوئے میرے پاس آئی اور کہا، "آپ بھی؟"


یہ سن کر میرے قدم جم گئے۔ میرے دل میں ایک ہول اٹھا۔ میں نے اس سے پوچھا، "تم کون ہو؟"

لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ بھی مجبور ہو کر یہاں آتی تھی، اور یہ شخص اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتا رہا تھا۔


میرے دل میں غصے اور نفرت کی لہر اٹھی۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ میں اپنی عزت اور اپنی روح کو کسی کی ہوس کا شکار نہیں بننے دوں گی۔

میں نے اس آدمی کو وہیں جھڑک کر کہا، "میرے بچوں کی بھوک میری عزت سے بڑی نہیں ہے۔ تم جیسے لوگ انسانیت کے نام پر دھبہ ہو!"


اس رات میں واپس اپنے بچوں کے پاس لوٹ آئی، ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ تھامے اور خود سے وعدہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، میں انہیں عزت کے ساتھ پالوں گی۔


پھر، میں نے سلائی کا کام شروع کیا، لوگوں کے کپڑے سئے، دن رات محنت کی۔ مشکل وقت ضرور تھا، لیکن میرے دل میں سکون تھا کہ میں نے اپنی خودداری کو قائم رکھا۔


میری کہانی ان تمام عورتوں کے لیے ایک سبق ہے جو حالات سے مجبور ہو کر اپنی عزت کے سودے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یاد رکھو، خودداری اور غیرت سب سے بڑی دولت ہے۔ اگر نیت سچی ہو تو اللہ راستے ضرور نکالتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments