سردی میں مرغی کے پنجے اور شفا کا راز
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں سردی اپنی شدت سے لوگوں کو کانپنے پر مجبور کر دیتی تھی، ایک بوڑھی عورت رہتی تھی جس کا نام بی بی سرفراز تھا۔ بی بی سرفراز اپنے حکمت کے لیے مشہور تھی۔ لوگ اس کے پاس اپنی بیماریاں لے کر آتے، اور وہ گھریلو نسخوں سے ان کا علاج کرتی۔
ایک دن، گاؤں کی ایک غریب عورت، زرینہ، اپنی بیمار بیٹی کو لے کر بی بی سرفراز کے پاس آئی۔ بیٹی کی ہڈیاں کمزور ہو چکی تھیں، اور ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔ زرینہ نے روتے ہوئے کہا، "بی بی، میری بیٹی کے لیے کچھ کرو۔ ہمارے پاس دوائی کے پیسے نہیں ہیں، اور ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ اس کی بیماری لا علاج ہے۔"
بی بی سرفراز نے زرینہ کو تسلی دی اور کہا، "اللہ کے ہر نعمت میں شفا ہے، ہمیں بس اسے ڈھونڈنا ہے۔" پھر وہ اندر گئی اور ایک پرانی کتاب نکالی۔ کتاب میں ایک پرانے نسخے کا ذکر تھا: سردیوں میں مرغی کے پنجے کھانے سے جسم میں طاقت آتی ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔
بی بی نے زرینہ کو کہا، "مرغی کے پنجے لو، انہیں دھو کر اچھی طرح ابالو۔ اس کا یخنی بناؤ اور روزانہ اپنی بیٹی کو پلاؤ۔ اللہ شفا دے گا۔" زرینہ نے بی بی کے مشورے پر عمل کیا۔
چند ہفتے بعد زرینہ خوشی خوشی بی بی کے پاس آئی۔ اس کی بیٹی صحت مند ہو چکی تھی اور کھیل کود میں مشغول تھی۔ زرینہ نے کہا، "بی بی، آپ کا نسخہ واقعی جادوئی ہے۔ میری بیٹی اب بالکل ٹھیک ہے!"
یہ خبر گاؤں میں پھیل گئی۔ لوگ مرغی کے پنجے جمع کرنے لگے اور انہیں مختلف طریقوں سے پکانے لگے۔ جلد ہی یہ بات میڈیکل مافیا تک پہنچی، جو مہنگی دوائیاں بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے مرغی کے پنجوں سے کیپسول بنانا شروع کر دیا اور انہیں ہزاروں روپے میں بیچنے لگے۔
بی بی سرفراز نے گاؤں والوں کو کہا، "یہ نعمت اللہ کی طرف سے ہے۔ اسے خود استعمال کرو اور دوسروں کو بھی اس کا فائدہ دو۔ ضرورت مندوں کی مدد کرو اور اپنے حق کے لیے کھڑے رہو۔"
گاؤں والے بی بی کے علم اور محبت کا شکریہ ادا کرتے رہے، اور سردی کے پنجے ان کے لیے نہ صرف ایک غذا بلکہ شفا کا ذریعہ بن گئے۔ اس دن سے، گاؤں میں مرغی کے پنجے شفا کی علامت بن گئے، اور بی بی سرفراز کا علم نسلوں تک یاد رکھا گیا۔
0 Comments