میں خاموشی سے اندر داخل ہوا وہ چپ کر کے ماں کے سامنے کھڑا ہو گیا ماں ادھر ہو افتاب میرے پاس بیٹھ جاؤ دیکھو بیٹا کل تم کتنا غلط کام کر رہے تھے

 میں خاموشی سے اندر داخل ہوا وہ چپ کر کے ماں کے سامنے کھڑا ہو گیا ماں ادھر ہو افتاب میرے پاس بیٹھ جاؤ دیکھو بیٹا کل تم کتنا غلط کام کر رہے تھے



 اس سے تمہاری جسم پر کتنے برے اثرات پڑ سکتے ہیں تمہیں اندازہ بھی ہے سوری مان دوبارہ نہیں کروں گا ماں سوری کے بچے وعدہ کرو کہ دوبارہ نہیں کرو گے ٹھیک ہے ماں دوبارہ نہیں کروں گا اوکے بیٹا سو جاؤ جا کے ماں نے کہا میں نے سوچا کہ جو میں نے دیکھا تھا سب ماں کو بتاؤں ماں اپ میرا اتنا خیال نہیں کرتی جتنا اپ نے باجی شازیہ کا رکھا ہے بیٹا میں سمجھی نہیں کیا کہنا چاہتے ہو کھل کر بتاؤ میں نے ہمت بڑھائی ماں 25 دن پہلے والی رات کو میں نے سب دیکھ لیا تھا جواب تینوں کر رہے تھے یہ بات کرتے ہی ماں کا رنگ پیلا ہو گیا اور ماں کی حالت بالکل خراب ہو گئی ماں کی یہ حالت دیکھ کر میں ڈر گیا اور دلاسہ دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اپ کی مجبوری ہے جتنا میں مجبور ہوں اس سے کہیں زیادہ اپ اور باجی شازیہ مجبور ہیں باجی شازیہ کی باتیں بھی میں نے سنی ہیں کہ وہ کتنی مجبور ہیں معاف فکر نہ کریں یہ میرا اور اپ کا راز رہے گا بادشاہ شازیہ کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ مجھے سب پتہ ہے اور نہ ہی سہیل کو پتہ چلے گا بس اپ انجوائے کرتی رہا کرو میری یہ باتیں سن کر ماں کافی ریلیکس ہو گئی مما نے نظریں جھکائی تھیں سوری بیٹا لیکن تیرے بابا چار پانچ سال بعد گھر اتا ہے بیٹا میں بہت برداشت کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن نہیں ہوتا مجھ سے میں ہنس دیا ویسے ماں ایک اور بات ہے ماں کیا کون سی مجھے یقین نہیں ہو رہا سہیل کتنا چھوٹا ہے اور اس کا طوطا کتنا بڑا ہے وہاں ہنس کر میرا کانس کان کھینچ کر بولی چل شیطان کوئی اپنی ماں کے ساتھ بھی اس طرح کی باتیں کرتا ہے میں نے کہا کہ اپ ہمیشہ سے میری دوستوں کی طرح رہی ہیں تو ہم یہ بات کھل کر سکتے ہیں اب ما مکمل میرے ساتھ کلوز ہو گئی تھیں ہاں بیٹا اپ کو تو میں نے دودھ میں گولی کھلائی تھی اس کو بھی تم نے ضائع کیا تھا جی ما اگر ضائع نہ کرتا تو ایسا نظارہ دیکھنے کو کدھر ملتا اچھا وہاں میری ایک ریکویسٹ ہے سہیل کو دوبارہ بلاؤ تاکہ میں دوبارہ فلم دیکھ سکوں چل کمینے اب تجھے اپنی ماں کو ایسا دیکھ کر اچھا لگتا ہے ماں پلیز میری خاطر ٹھیک ہے ابھی تو 25 دن ہوئے ہیں کہ سہیل یہاں ایا تھا پلیز ماں حالہ کو کوئی بہانہ بناؤ اور کچھ کرو ٹھیک ہے کل بات کریں گے ابھی تو رات کے تین بج گئے ہیں نہیں ماں ابھی کال کرو وہ لوگ دیر تک جاتے ہیں یہ سمرین کل ہی سہیل کو بھیجیں افتاب بیمار ہے مارکیٹ سے سنبھال لانے والا کوئی نہیں اور مجھے تکلیف ہوتی ہے سمرین خالہ نے ہنس کر کہا کہ افتاب تو نہیں ہے تیرے پاس ماں نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا نہیں وہ اپنے کمرے میں سویا ہوا ہے اچھا بس کل جلدی بھیجی اس کو ہالہ ٹھیک ہے لیکن سہیل کو نہ پتہ لگے ماں ٹھیک ہے فون بند کر دیا میں نے ماں کو حیران نظروں سے دیکھا ماں حالہ کو بھی پتہ ہے ہاں بیٹا اس کی مرضی سے یہ ہوتا ہے لیکن سہیل کو نہیں پتا ٹھیک ہے ماں بس جلدی سے سہیل ا جائیں بہت جلدی ہے مجھے ماں ہنس کر بولی میں ہنس کر ماں اس دفعہ میرے سامنے کرنا ٹھیک ہے معمولی نہیں بیٹا یہ نہیں ہو سکتا سہیل کو پتہ چل جائے گا میں نے کب کہا کہ سہیل کو پتہ لگے بس ویسے ہی میرے کمرے میں ایک بیڈ اور ایک چارپائی ہے چارپائی پہ میں سو جاؤں گا اور بیڈ پر اپ دونوں رہو گے اب گولی کا بہانہ کرنا کہ اس کو گولی کھلائی ہے اور دوسرا میرے کمرے میں ہیٹر بھی ہے ماں ہنس کر میں تو تجھے چھوٹا سمجھتی تھی لیکن تم تو بڑے کمینے ہو پلان بھی تم نے سوچ لیا ٹھیک ہے بیٹا مجھے بھی نیند پوری کرنے دو تم بھی پوری کر لینا ویسے بھی وہ کل تیری ماں کو ساری رات جگائے رکھیے گا ٹھیک ہے ماں گڈ نائٹ اوکے بیٹا گڈ نائٹ سوپر ناشتہ کیا تو سہیل کی کال اگئی افتاب ماں بتا رہی تھی کہ اب بیمار ہو ہاں یار جلدی ا جانا ٹھیک ہے میں نکل گیا ہوں پنڈی ا رہا ہوں ماں کو خوشخبری سنائی بیٹا سہیل کے سامنے ناٹک کرنا اسے پتہ نہیں لگنا چاہیے ٹھیک ہے ماں ظہر کا ٹائم ہو گیا ماں بھی

بھی سلام دعا کی انے سہیل کو ایک سمائل دی کہ بیٹا میں چائے بنا کر لاتی ہوں سہیل نے بتایا خالد جان میں تھوڑا ارام کرنا چاہتا ہوں سفر کی وجہ سے تھکا ہوا ہوں مام مسکرا کر بولی ٹھیک ہے بیٹا میری کمرے میں سو جاؤ شیر ماں کے کمرے میں سو گیا اور ماں کھانا بنانے چلی گئی اور ہم باہر گھومنے گئے شام کو گھومنے کے بعد واپس ائے اور کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد میں نے بتایا چلو اپ صاحب بیٹا دودھ پی لو کچن میں پڑا ہے کچھ دیر بعد میں وہاں گیا اور واپس اگیا ماں مجھے نیند ارہی ہے لیکن میں تو اس انتظار میں تھا کہ کب یہ فلم سٹارٹ ہوتی ہے کچھ دیر کے بعد ماں اور سہیل باتیں کرنا شروع ہو گئی اور پھر اہستہ اہستہ سے ماں صوفے سے اٹھ کر سہیل کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور بولے تو سہیل بیٹا اور سناؤ کیا حال ہے تم اج کل تو اپنی خالہ کو جیسے بھول ہی گئے ہو کوئی اور مل گئی ہے کیا بیٹا نہیں کھانا بس کیا کروں وہاں کہیں جانے ہی نہیں دیتی اور روز روز کون سا وہانہ کروں دل تو میرا بھی بہت کرتا ہے لیکن کیا کروں اپ بتاؤ کیسی ہو اتنے دن کیسے گزارے میرے بنا یا پھر میری جگہ کسی اور کو تو نہیں بیٹا بنا لیا کسی اور میں اتنی ہمت کہاں یہ تم ہی تو ہو جس سے مجھے پورا پیار ملتا ہے اس طرح ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے سہیل ہنسنے لگا اچھا جی تو یہ بات ہے چلو اج 25 دن کی ساری کا سر نکالتے ہیں ویسے خالہ اگر یہاں پر افتاب اٹھ گیا اور ہم دونوں کو اس طرح دیکھ لیا تو بہت مسئلہ ہو جائے گا اس لیے میری صلاح ہے کہ چلیں خالہ اپ کے کمرے میں چلتے ہیں وہاں پر کوئی نہیں ہے اور کسی چیز کا خطرہ بھی نہیں ہوگا ماں بولی بیٹا ویسے بھی افتاب کو میں نے دو گولیاں دی ہیں اسے کچھ پتہ نہیں چلے گا اور اس کمرے میں ہیٹر بھی ہے میرے کمرے میں بہت ٹھنڈ ہے ٹھیک ہے خالہ جیسے اپ کی مرضی خالہ اپ نے مرضی شازیہ کو بلایا نہیں اگر وہ ہوتی تو اور بھی اچھا ہوتا کیوں بیٹا اپ کا خالہ سے دل بھر گیا ہے کیا نہیں نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اپ تو بہت سپیشل ہیں تو بیٹا پھر سوچ کیا رہے ہو شروع کرو ماں اٹھی اور دونوں بیٹھ کی طرف چلی گئی چلتے چلتے ماں نے مجھے انکھ ماری میں کمبل سے چھپ چھپ کر دیکھ رہا تھا اس طرح مسلسل چار پانچ دن لگاتار ہوتا رہا اور پھر سہیل واپس چلا گیا ماں تیرا تو کام ہوتا ہے لیکن میرا نہیں ہوا میں نے بھی خالہ سے ملنا ہے ٹھیک ہے بیٹا اس ہفتے میں سہیل کی ماں کو بلاتی ہوں اور میں نے اس کو بالکل راضی کر لیا ہے ماں سچ ہاں بیٹا میں شازیہ کا کام کر سکتی ہوں تو تیرا کیوں نہیں لیکن بیٹا وہ کہتی ہے کہ میں تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے کون سی شرط ماں پتہ نہیں کہہ رہی تھی کہ وہاں اگر بتاؤں گی یہ سن کر میں بہت زیادہ خفا ہوا بیٹا خفا کیوں ہوتے ہو تیری ماں ہے نا اگلے ہفتے انٹی سمجھیں یعنی سہیل کی ماں ا گئی یہ بات سوچ کر میں بہت زیادہ شرما رہا تھا سمرین انٹی مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی ہے پھر ماں سے بولی سمرین انٹی ارے ائمہ میرا بھانجا تو بہت شرماتا ہے تو پھر اس طرح کیسے بنے گا کام اور انٹی نے ایک زوردار کہکا لگایا جس پر ماں بھی ہنس پڑی رات ہوئی اور میں بہت زیادہ پریشان تھا کہ کس طرح میں سٹارٹ لوں گا اور کیسے ہوگا اور پھر وقت کا پتہ ہی نہ چلا رات اٹھ بجے کے بعد ماں اور انٹی دونوں اپنے کمرے میں چلی گئی میں نے دروازے کے ساتھ کان لگایا تو انٹی نمک کو بتایا کہ ائمہ میں تیار ہوں اس کام کے لیے اخر افتاب بھی تو میرا بیٹا ہے لیکن میری شرط ہے کہ تم بھی ہمیں دیکھو گی ماں نے ہنس کر کہا کہ کوئی نہیں میری بہن مجھے منظور ہے اور ویسے بھی اس میں کون سی بڑی بات ہے افتاب کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ میرا اسہیل کا کیا رشتہ ہے اور وہ ہمیں کئی بار دیکھ بھی چکا ہے یہ سن کر انٹی چونک پڑی پھر کچھ باتیں کرنے کے بعد ماں نے مجھے اواز دی افتاب بیٹا ادھر ا جاؤ میں ہمت کر کے کمرے میں گیا تو ماں بولی لو بیٹا تمہاری حالت تمہارے لیے تیار بیٹھی ہیں اور پھر میں نے خالہ کے ساتھ ماں کے سامنے ہی اپ سبھی لوگوں کو یہ کہانی کیسی لگی کمنٹ کر کے ضرور اور 

Post a Comment

0 Comments