کہانی بہت ہی شاندار ہونے والی ہے کہانی کو پورا سننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے گا بڑھتے ہیں اج کی کہانی کی جانب میرا نام ماریہ ہے اور میں اسلام اباد سے تعلق رکھتی ہوں

یہ ان دنوں کے بعد ہے جب میں دسویں جماعت میں پڑھتی تھی اور میری عمر تقریبا 18 بس تھی میرے ابا سکول میں ٹیچر تھے ان کی ایک ہی بہن تھی یعنی میری ایک ہی پھپھو تھی میری پھپھو کی شادی بہت زیادہ غریب گھرانے میں ہوئی تھی اس لیے میرے ابا ہی میری پھوپھی کا خیال رکھا کرتے تھے اور اکثر اوقات وہ ہمارے گھر میں ہی رہا کرتی تھی میری پھپھو کا ایک ہی بیٹا تھا جو میرا ہم عمر تھا میری اور میری پپو کے بیٹے کی بہت ہی زیادہ بنتی تھی پپو بھی مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی اور جب بھی میرے گھر اتی میرے لیے خوب تحفے لے کر اتی تھی میری پھوپھو کے بیٹے کا نام علی تھا علی بھی میری طرح بہت ہی زیادہ اٹریکٹ ہو رہا تھا علی کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن وہ باتیں بڑوں والی کیا کرتا تھا اس کی ہر بات سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے استعمال کرنا چاہتا ہو اس کی اکثر باتیں مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں اتی تھی لیکن میں بہت زیادہ پریشان تھی کہ اخر وہ کیا کہنا چاہتا ہے میں اسے بچہ سمجھتی تھی لیکن شاید وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا وہ میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں سوچتا تھا لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی اب تو میری پھپھو اور اس کا بیٹا مسلسل ہمارے گھر میں قیام پذیر تھے کیونکہ گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھی پوپو ہمارے گھر رہنے کے لیے ائی ہوئی تھی جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے علی میرے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ ہو گیا تھا اب وہ ہر وقت میرے کمرے میں رہنے لگا تھا ہم دونوں مل کر ہی کھیلتے اور مل کر سبق یاد کر لیا کرتے تھے گھر والے بھی ہم پر بالکل بے شک نہیں کرتے تھے کیونکہ ہم دونوں کزن تھے کوئی بھی ہماری طرف ایسی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا اور علی اس بات کا بہت زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا علی کو جب بھی موقع ملتا وہ میرے ساتھ عجیب قسم کی باتیں کرنا شروع کر دیتا پہلے بہل تو میں علی کی باتوں پر غصہ کیا کرتی تھی لیکن جیسے جیسے جن گزرتے جا رہے تھے پتہ نہیں کیوں مجھے بھی علی کی باتیں اچھی لگنے لگی میرا خود بھی دل چاہتا تھا کہ علی مجھ سے ایسی باتیں کرے ایسی باتیں کرنے سے مجھے بہت زیادہ سکون ملنے لگا تھا علی کے ساتھ ساتھ میں بھی برائی کی طرف راغب ہو رہی تھی لیکن مجھے اس بات پر یقین تھا کہ علی کبھی بھی مجھے کسی کے سامنے رسوا نہیں ہونے دے گا دن جیسے ہی گزرتے رہے پھر ایک روز علی مجھ سے کہنے لگا میں تم سے تعلق بنانا چاہتا ہوں میں علی کی کچھ باتیں سمجھ نہیں پا رہی تھی میں نے علی سے کہا کہ کیسا تعلق بنانا چاہتے ہو ہم تو پہلے ہی کزن ہیں علی مجھ سے کہنے لگا نہیں میں اس تعلق کی بات نہیں کر رہا میں بھی بچی نہیں تھی مجھے علی کی ساری باتیں اس روز سمجھ ارہی تھی علی مجھ سے دو سال چھوٹا تھا لیکن اس کی باتیں بڑوں والی تھی جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے میرے حسن کو بھی چار چاند لگ رہے تھے میں پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی علی بھی میری خوبصورتی پر فدا ہو چکا تھا وہ ہر وقت مجھے حاصل کرنے کی ضد میں لگا رہتا جب بھی علی مجھے دیکھتا وہ مجھے دیکھتا ہی رہ جاتا اس کی حالت سے ایسے لگتا جیسے وہ میرے ساتھ ضرور کوئی کھیل کھیلے گا وہ میری طرف بہت عجیب نظروں سے دیکھتا تھا علی کا ایسے دیکھنا مجھے بہت زیادہ خوفزدہ کر رہا تھا اس کی نیت مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی اور مجھے اس بات کا بہت زیادہ ڈر تھا کہ اگر یہ بات اور ابو تک پہنچ گئی تو وہ میرا بہت زیادہ برا حال کر دیں گے ویسے بھی علی مجھ سے دو سال چھوٹا تھا اور میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اسے سمجھاؤں یہ کام ٹھیک نہیں ہے ایک دو مرتبہ میں نے علی کو پیار سے سمجھانے کی بہت زیادہ کوشش کی لیکن علی اپنی ضد پر قائم تھا وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کر کے رہوں گا پہلے بہل تو مجھے ایسے لگا جیسے علی مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ محبت نہیں مجھ سے کچھ اور ہی چاہتا تھا اور یہ بات مجھے اچھی طرح سمجھ ا چکی تھی کیونکہ محبت کرنے والے ایسے بالکل بھی نہیں ہوتے اس بات کا اندازہ مجھے اس روز ہوا جب وہ میرے حسن کی بار بار تعریف کرنے لگا اور کہنے لگا اتنی سی عمر میں تم تو بہت موٹی لگ رہی ہو حالانکہ میں بالکل بھی موری نہیں تھی علی کی یہ بات بھی مجھے اچھی طرح سے سمجھ اگئی تھی کہ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے میرے لاک منع کرنے کے باوجود علی اپنی ضد پر قائم تھا وہ صرف موقع کی تلاش میں تھا پھر ایک روز ایسے ہی ہوا کہ میرے ابو اور میری پپو بازار چلے گئے ہم دونوں گھر میں اکیلے تھے علی کو جب یہ بات پتہ چلی تو وہ میرے کمرے میں ا گیا اس وقت میں بیڈ پر بیٹھی کتابیں پڑھ رہی تھی علی میرے کمرے میں ایا اور مجھ سے
اس کی تلاش میں تھا پھر ایک روز ایسے ہی ہوا کہ میرے ابو اور میری پھپھو بازار چلے گئے ہم دونوں گھر میں اکیلے تھے علی کو جب یہ بات پتہ چلی تو وہ میرے کمرے میں اگیا اس وقت میں بیڈ پر بیٹھی کتابیں پڑھ رہی تھی علی میرے کمرے میں ایا اور مجھ سے کہنے لگا اؤ اج مل کر کچھ دیکھتے ہیں وہ اپنا لیپ ٹاپ بھی اپنے ساتھ لے کر ایا تھا میں علی کی بات مان گئی اور ہم دونوں ایک مووی دیکھنے لگے علی میرے بالکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس کی نظر مووی پر نہیں تھی بلکہ مجھ پر تھی لیپ ٹاپ کی طرف کم اور میری طرف زیادہ دیکھ رہا تھا وہ میری طرف دیکھ کر بہت ہنس رہا تھا پھر اچانک علی نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور مجھ سے کہنے لگا کیا تم میرا ساتھ دو گی میں نے علی سے پوچھا تم کس سات کی بات کر رہے ہو علی مجھ سے کہنے لگا بس تم میری یہ بات کسی کو مت بتانا میں نے علی سے کہا پہلے تم مجھے وہ بات بتاؤ علی مجھ سے کہنے لگا تمہیں خود پتہ چل جائے گا بس تم وعدہ کرو کہ تم یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گی اس روز میں نے حامی بھر لی کہ ٹھیک ہے میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گی علی نے میرا ہاتھ پکڑا اور میرے حسن کی تعریفیں پھر سے شروع کر دی پھر علی مو سے کہنے لگا میں تمہاری چڑیا دیکھنا چاہتا ہوں میں نے علی کو جب کہا کہ میرے پاس تو کوئی چڑیا ہی نہیں ہے تو وہ میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگا پھر علی مجھ سے کہنے لگا کیا تم اپنی چڑیا کچھ دیر کے لیے میرے حوالے کر سکتی ہو میں نے علی سے کہا کہ مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ نہیں ارہی میرے پاس ایسی کوئی چڑیا نہیں ہے جو میں تمہیں دے سکوں اس کے بعد جو کچھ علی نے کہا وہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ علی مجھ سے ایسی بات کرے گا اس روز پھر علی نے وہ کچھ کیا جو میں کچھ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور میرے ذہن و گماں میں بھی نہیں تھا وہ اتنی اچھی طرح سب کچھ کر رہا تھا مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پہلے سب کچھ کر چکا ہو وہ یہ کام بہت اچھے طریقے سے سر انجام دے رہا تھا کہ کہیں اور ابو گھر واپس نہ ا جائیں میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو رہی تھی حالانکہ ابھی علی کی عمر تقریبا 14 سال تھی لیکن پھر بھی اسے کوئی ڈر ہی نہیں تھا مدینہ مجھے بھی ان باتوں میں لگا لیا تھا اب میرا بھی ہر روز ایسا ہی من کرتا میں علی کے ساتھ یہی سب کچھ کرتی رہوں اب میرا خود دل کرتا تھا کہ میں اپنی چڑیا علی کے حوالے کر دوں علی بھی میری چڑیا کے ساتھ بہت زیادہ کھیلتا تھا علی کا طوطا بھی کچھ زیادہ بڑا نہیں تھا اس لیے مجھے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا تھا میں اور علی ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی زیادہ کھیلتے تھے علی بھی سمجھداری کے ساتھ سارے کام سر انجام دیتا تھا مجھے اطمینان تھا کہ علی یہ بات کسی تک نہیں پہنچنے دے گا اب جب کبھی علی کا دل کرتا وہ میری چڑیا لینے کے لیے میرے کمرے میں ا جاتا تھا اور میں بھی علی کو بالکل بھی منع نہیں کرتی تھی کیونکہ علی کے ساتھ ساتھ میں بھی بہت ہی زیادہ خوش ہو جایا کرتی تھی دوستوں کہانی اچھی لگی ہو تو چینل کو سبسکرائب کرنا مت بھولیے گا اور کہانی کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور بیل ائیکن کو پریس کر لیں تاکہ ہر انے والی نئی کہانی کا نوٹیفکیشن اپ کو باسانی ملتا رہے ملیں گے ایک اچھی اور عمدہ کہانی کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ حافظ
0 Comments