بلقیس بانو کیس: انصاف کی ایک طویل جدوجہد
بلقیس بانو کیس بھارت کی تاریخ میں مسلم مخالف تشدد کے ایک نہایت ہولناک اور المناک باب کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ واقعہ 3 مارچ 2002 کو گجرات کے داہود ضلع کے لمکھیڑا علاقے میں اس وقت پیش آیا جب گجرات میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر تھے۔ اس دن، بلقیس بانو، جو اُس وقت صرف 21 برس کی حاملہ خاتون تھیں، اُن کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، اور اُن کی تین سالہ بیٹی صالحہ سمیت اُن کے خاندان کے 14 افراد کو ایک مشتعل ہندو ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا۔
پس منظر: گجرات فسادات 2002
فروری 2002 میں گودھرا ٹرین سانحے کے بعد گجرات بھر میں بڑے پیمانے پر مسلم مخالف فسادات پھوٹ پڑے، جن میں ہزاروں افراد جان سے گئے، اکثریت ان میں مسلمانوں کی تھی۔ انہی فسادات کے دوران لمکھیڑا میں بلقیس بانو اور ان کے خاندان پر یہ ہولناک حملہ ہوا۔ وہ لوگ اپنے گاؤں سے نقل مکانی کر کے محفوظ مقام کی تلاش میں تھے، لیکن راستے میں موت اور ظلم اُن کا انتظار کر رہے تھے۔
بلقیس بانو کی ہمت اور قانونی جنگ
اس واقعے کے بعد، بلقیس بانو نے ہمت نہ ہاری۔ اُنہوں نے نہ صرف ایف آئی آر درج کروائی بلکہ بھارتی عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ ابتدا میں مقامی سطح پر انصاف ملنا ممکن نہ تھا، بلکہ انہیں پولیس اور مقامی نظام سے دھمکیوں اور دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، 2004 میں سپریم کورٹ کے حکم پر مقدمے کی سماعت مہاراشٹرا منتقل کر دی گئی، جہاں 2008 میں ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے 11 افراد کو اس اجتماعی زیادتی اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔
عدالتی فیصلہ اور بعد کی پیش رفت
بلقیس بانو کے لیے یہ فیصلہ ایک اہم موڑ تھا، لیکن جدوجہد یہیں ختم نہیں ہوئی۔ انہیں انصاف کی اس لڑائی میں کئی سال لگے، اور 2019 میں بھارتی حکومت نے انہیں 50 لاکھ روپے ہرجانہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، 2022 میں ان ہی 11 مجرموں کو گجرات حکومت کی جانب سے سزا کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی معاف کر دیا گیا، جس پر ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل اور عدالتی سوالات اٹھے۔
نتیجہ: انصاف کا امتحان
بلقیس بانو کیس نہ صرف ایک ذاتی المیہ ہے بلکہ یہ بھارت کے عدالتی اور سماجی نظام کے لیے ایک آزمائش بھی بن گیا۔ اس کیس نے ثابت کیا کہ اگرچہ انصاف کا راستہ طویل اور کٹھن ہو سکتا ہے، مگر عزم اور استقلال کے ساتھ لڑی گئی قانونی جنگ بالآخر سچ کو سامنے لاتی ہے۔ بلقیس بانو آج بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اور اُن کا کیس انسانیت، انصاف، اور ریاستی ذمہ داری کے اہم سوالات کو اجاگر کرتا ہے۔
کیا آپ اس مضمون کو اردو اخبار کے لیے فار
میٹ کرنا چاہتے ہیں؟
0 Comments