ایک خاتون کہتی ہیں کہ میری ایک پڑوسن تھی جو میرے لیے بہن کی طرحتھی۔ جب اس کے شوہر کا انتقال ہو

 ایک خاتون کہتی ہیں کہ میری ایک پڑوسن

 تھی جو میرے

 لیے بہن کی طرحتھی۔ جب اس کے شوہر کا

 انتقال ہوا اور

 وہ دو بچوں کے ساتھ رہ گئی تو ہماری

 دوستی اور بھی

 گہری ہو گئی۔ میرے شوہر کو اس پر اور اس

 کے بچوں پر

 رحم آتا تھا، اور وہ ہمیشہ ہمارے گھر میں

 موجود رہتی تھی۔ ہم اکثر ساتھ مل کر کھانا

 پکاتے، اور جب میں بیمار ہوتی تو وہ گھر کے

 کام سنبھالتی۔ جب مجھے بازار جانا ہوتا یا

 کسی اور کام کے لیے باہر جانا پڑتا، تو میں

 اپنی چھوٹی بیٹی کو اس کے پاس چھوڑ

 دیتی تھی۔


شروع میں وہ میرے شوہر کے سامنے شرماتی

 تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ




وہ اس سے باتیں کرنے لگی اور اپنے بالوں کو

 بھی کھولنے لگی۔ وہ ایک خوبصورت عورت

 تھی اور ابھی کم عمر بھی تھی۔ پھر ایک دن

 اتفاقاً مجھے پتا چلا کہ میرا شوہر اس کے

 گھر

 جاتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام چیزیں لے کر

 آتا ہے جو وہ مانگتی تھی۔ جب میں نے اپنے


 شوہر کا سامنا کیا، تو اس نے کہا کہ وہ اس

 پر

 اور اس کے بچوں پر ترس کھاتا ہے۔ میں نے

 اس سے کہا کہ تم نے مجھے یہ بات کیوں نہیں

 بتائی، جب کہ میں بھی اس کی مدد کرنے میں

 کبھی بخل نہیں کرتی تھی۔


اس دن کے بعد سے وہ میرے گھر نہیں آئی،

 اور جب میں اس کے گھر گئی تو اس نے

 دروازہ بھی نہیں کھولا۔ یہاں تک کہ اس کے

 بچوں کو بھی میں نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

 میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں اپنی پڑوسن

 کو نہیں دیکھتی اور نہ ہی وہ اب ہمارے گھر

 آتی ہے۔ اس نے جواب دیا: "میں نے ہی اسے

 کہا ہے کہ ہمارے 



نہ آئے۔" میں نے اس سے پوچھا کیوں؟ تو اس

 نے کہا: کیونکہ میں اس سے شادی کرنے والا

 ہوں۔"


اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم مان جاتی ہو

 تو میں اس سے شادی کر لوں گا اور تمہیں

 بھی ساتھ رکھوں گا۔ اگر تم نہ مانو تو میں

 تمہیں طلاق دے کر تمہیں اور بچوں کو گھر

 سے نکال دوں گا، اور آخر میں اسی سے

 شادی

 کر لوں گا۔ میں نے اس شرط پر رضا مندی

 ظاہر کی کہ وہ اپنے گھر میں رہے اور میں اپنے

 گھر میں۔


اس نے اس سے شادی کر لی اور روزانہ اس کے

 گھر جانے لگا، اور مجھے نظر انداز کرنے لگا۔

 کچھ عرصے بعد اس نے مجھے طلاق دے دی

 اور مجھے اور بچوں کو گھر سے نکال دیا اور

 وہ عورت اس گھر میں رہنے لگی۔ اس نے اپنا

 گھر کرائے پر دے دیا تاکہ وہ پیسہ جمع کر

 سکے اور اپنے بچوں پر خرچ کر سکے، جبکہ

 میرا شوہر اس کے اور اس کے بچوں کے

 اخراجات پورے کرتا


رہا اور اپنے بچوں کو بھول گیا ۔



میں اپنے والدین کے گھر میں رہنے لگی، اور

 میرا بڑا بیٹا جو کہ 18 سال کا تھا، فوج میں

 بھرتی ہو گیا۔ میں نے اپنا سارا زیور بیچ کر

 ایک گھر کرائے پر لیا، کیونکہ میں اپنے والدین

 کے گھر میں آرام دہ محسوس نہیں کر رہی

 تھی۔ میں نے گھر میں کام کرنا شروع کر دیا،

 لوگوں کے کپڑے سی کر اور مٹھائیاں بنا کر

 بیچنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرے بچے

 بڑے ہو گئے اور میں نے اپنی بیٹی کی شادی

 کی۔ اس کے والد نے شادی میں شرکت نہیں

 کی۔ میرے بھائی نے اس سے وکالت نامہ لیا

 تاکہ ہم اس کی شادی کا عقد کر سکیں، اور

 اس کا وکیل اس کا ماموں بنا۔


میری چھوٹی بیٹی اپنی پڑھائی میں بہت

 کامیاب تھی، اور وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں

 ڈاکٹر بنوں گی۔ حکومت نے مجھے ایک مکان

 دیا، جس میں میں نے رہائش اختیار کی۔ الحمد

 للہ، اور اب میں اپنے بیٹے کے لئیے دلہن تلاش

 کر رہی ہوں۔


جہاں تک میرے سابق شوہر کا تعلق ہے، وہ اب

 بیمار ہے اور کام کرنے کے قابل نہیں رہا، اور

 اس کی بیوی ہی اب سب کچھ سنبھالتی ہے۔

 اس سے چار بچے بھی پیدا ہوئے۔


میں نے اپنی کہانی اس لئیے سنائی تاکہ آپ

 سب جان سکیں کہ اس دنیا میں کوئی امانت

 دار نہیں، نہ ہی کسی پر بهروسہ کیا جا سکتا

 ہے۔ کوئی بھی آپ کو خود سے زیادہ محبت

 نہیں کرے گا۔ اپنے گھروں میں آنے والوں سے

 ہوشیار رہیں اور انہیں بے جا بھروسہ نہ دیں

 کیونکہ



انسانوں پر بھروسہ کرنا خطرناک ہو سکتا

Post a Comment

0 Comments