میں 15 سال کی تھی جب ماموں مجھے اپنے ساتھ دبئی لے گئے۔ میری ایسی کٹھنائیوں کی داستان ہے جو کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ میری زندگی کا بوجھ میرے کاندھوں پر تھا، اور میرے ماموں نے ایک نئی زندگی کی امید دلائی۔ مگر یہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا عذاب بن گیا۔ ماموں مجھے ایک حبشی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
جب میں نے یہ سنا تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ میں ایک نئے اور انجان ماحول میں تھی، جہاں نہ کوئی میرا دوست تھا اور نہ کوئی مددگار۔ حبشی نے مجھے کبھی برا سلوک نہیں کیا، نہ ہی مجھے کام کرنے پر مجبور کیا۔ وہ بس خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہا تھا، لیکن مجھے اس کی خاموشی سے ڈر لگتا تھا۔
حبشی کے گھر میں ایک بوڑھی ملازمہ تھی جو ہمیشہ مجھے اشارے کرتی رہتی کہ بھاگ جاؤ، ورنہ تمہارا انجام برا ہوگا۔ میں اس کی باتوں کو سمجھتی تھی، مگر انجان ملک میں میں کہاں جاتی؟ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، اور میری ہمتیں ٹوٹ رہی تھیں۔ میں نے اس بوڑھی ملازمہ کی باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ مجھے تہہ خانے میں لے گئی تو میری حالت پتلی ہو گئی۔
تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی میرا جسم لرز اٹھا۔ وہ جگہ سنسان اور خوفناک تھی۔ دیواروں پر پراسرار سایے اور نمکین ہوا کی خنکی نے مجھے خوف میں مبتلا کر دیا۔ لیکن ملازمہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ یہاں کچھ اور بھی ہے۔
"یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے، مجھے صرف یقین دلاؤ کہ تم سنوگی۔" اس نے مجھے کہا۔
میں نے سر ہلایا، جیسے ہی میں نے اس کی بات مان لی، اس نے ایک درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا سوراخ دکھایا۔ "یہاں سے نکل جاؤ، اور تم آزاد ہو جاؤ گی۔" اس کے الفاظ میرے دل میں ایک امید کی کرن بن گئے۔
مگر میں سمجھ رہی تھی کہ ہر چیز آسان نہیں ہوتی۔ آپ کی جان خطرے میں ہے، اور اس لئے مجھے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا۔ کیا میں بھاگ سکتی تھی؟ کیا میری قسمت مجھے مزید مظلومیت سے آزاد کر دے گی؟ یہ خیالات میرے ذہن میں چکر لگا رہے تھے۔
آخری لمحے میں، میں نے اپنے دل کی سن لی۔ میں نے تہہ خانے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ دل کی دھڑکن تیز تھی، اور میں نے سوچا کہ آزادی کی راہ اختیار کرنا چاہئے۔ ملازمہ نے دوبارہ اشارہ کیا کہ میں جلدی کروں۔ وہ میرے پیچھے تھی، میرے دماغ میں صرف آزادی کی سوچ تھی۔
جب میں بالآخر باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی، میں نے آزادی کی خوشبو محسوس کی۔ میرے قدموں میں طاقت آئی اور میں نے سوچا کہ اب مجھے کبھی واپس نہیں جانا۔ میں نے اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنے نئے مستقبل کی تلاش میں نکل پڑی۔
میں جانتی تھی کہ زندگی آسان نہیں ہوگی، مگر اب میں اکیلی نہیں تھی۔ میں نے اپنی عزت اور خودداری کے لیے لڑنے کا عزم کیا اور اپنے جیون کی نئی شروعات کی۔ میری کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، یہ تو ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔
باہر کی ہوا میں ایک تازگی تھی، میں نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں چمکتے ستارے میرے نئے سفر کی راہنمائی کر رہے تھے۔ میں نے دل میں عزم کیا کہ جو کچھ بھی ہو، مجھے دوبارہ اپنی زندگی کو سنوارنے کا موقع ملے گا۔ جتنا بھی خوفناک میری کہانی رہی ہو، اب میں اپنی تقدیر خود لکھوں گی۔ میری آزادی کا سفر شروع ہو چکا تھا، اور میں نئے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں نکل پڑی۔
0 Comments