میرا نام فہد ہے اور اج میں بہت بے چینی سے پورے گھر کے چکر لگا رہا تھا کبھی لاونج میں جاتا تو کبھی اپنے کمرے میں

 میرا نام فہد ہے اور اج میں بہت بے چینی سے پورے گھر کے چکر لگا رہا تھا کبھی لاونج میں جاتا تو کبھی اپنے کمرے میں چلا جاتا اور کبھی کھڑکی کھول کر وہاں پر گہری گہری سانپیں لینے لگتا مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ اج میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اج میرے ائی سی ایس کی امتحان کا نتیجہ انے والا ہو





 میری دھڑکنیں کافی تیز ہو رہی تھی میری امی ابو کو گھر سے گئے ہوئے ابھی ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا اور میری حالت اتنی زیادہ غیر ہو چکی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا میں مشال سے بے پناہ محبت کرتا تھا وہ میری پھپھو کی بیٹی تھی اور میرے لیے وہ ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت رکھتی تھی میں نے ہمیشہ اسے اپنی دلہن بنانے کا خواب دیکھا تھا مجھے معلوم تھا کہ مشال مجھے خاص پسند نہیں کرتی اور نہ ہی میرے ساتھ زیادہ بات چیت کرنا پسند کرتی ہیں لیکن پھر بھی مجھے امید تھی کہ بھوپھو مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار نہیں کریں گی میں نے سوچ رکھا تھا کہ میرے گھر کے حالات بے شک جیسے بھی ہیں بس ایک بار اگر مشال میری بیوی بن جائے تو میں اسے اتنی محبت اور اہمیت دوں گا تو وہ ساری رنجشیں بلا کر خود ہی مجھے قبول کر لے گی لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اج میرے سامنے کیسی بھیانک حقیقت عیاں ہونے والی ہے تقریبا دو گھنٹے بعد ظاہر کی گھنٹی بجی اور میں بھاگتا ہوا دروازے کی طرف پہنچا کیونکہ اس وقت امی ابا کی لاوا کسی اور کے انے کا امکان نہیں تھا میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو بالکل میری سوچ کے مطابق وہاں امی اور ابا ہی کھڑے تھے ان کے چہروں پر غصے کے اثار دیکھتا ہے میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے میں نے انہیں اندر انے کا راستہ دیا اور فورا پانی کا گلاس تمایا پھر میری امی نے غصے سے مجھ پر بولنا شروع کر دیا بیٹا دیکھ لیا تم نے اپنی ضد میں ا کر ٹونے کروا دی نہ ہماری بےعزتی اب مل گیا ہے نا تجھے سکون یا ابھی بھی نہیں ملا کہا تھا نا کہ ہمیں تیری پھوپوں کے گھر نہیں جانا چاہیے وہ لوگ صرف مفاد پرست ہیں اپنا فائدہ نکال کر لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے ہیں اج انہوں نے ہمیں بھی ایسے نکال دیا جیسے دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دیتے ہیں امی ابا کے انے سے پہلے میری حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اگر یہ لوگ مجھے ابھی بھی حقیقت سے اگاہ نہ کرتے تو شاید مجھے اسی کشمکش میں دل کا دورہ پڑ جاتا پھر میں نے اپنے ابا کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے بولا ابا یہ امی کیا کہنا چاہتی ہیں مجھے ان کی باتیں بالکل سمجھ نہیں ارہی سب خیر تو ہے نا ابا نے میری طرف ایک نظر ڈالی اور سپاٹ لہجے میں کہنے لگے تمہاری پھوپھو نے اس رشتے سے انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ فہد کے پاس نہ ہی کوئی اچھی نوکری ہے اور نہ ہی اپنا گھر اسی لیے وہ اپنی بیٹی مشال کی شادی تم سے نہیں کرنا چاہتی وہ کہتے ہیں جب بھی تم ہمارے معیار کے نہیں ہو پہلے تم کچھ بن جاؤ پھر اس معاملے پر بات کریں گے یہ سن کر میں حیران رہ گیا اللہ کا شکر تھا کہ میری نوکری اتنی اچھی تھی کہ میں ارام سے مشال کے ہر نخرے برداشت کر سکتا تھا ہاں میں مانتا ہوں کہ ہمارے پاس اپنا گھر نہیں تھا اور ہم کرائے کے امکان میں رہتے تھے لیکن میں نے کون سا مشال سے شادی کر کے اسے بغیر کسی گھر کے رکھنا تھا عاشر کار میں نے رکھنا تو اسے چھت تلے ہی تھا مگر ان لوگوں نے جو بے تکی بات نہیں وہ میری سمجھ سے بالاتر تھی میں خوروں سر نفی میں ہلاتے ہوئے الٹے قدموں بڑی بے چینی سے بھٹو کے گھر کی طرف بھاگ نکلا اور میری ماں پیچھے سے مجھے اوازیں دیتی رہ گئی لیکن میں نے کسی کی بھی بات پر دھیان نہیں دیا میں خود براہ راست جا کر کپڑوں سے اس معاملے پر بات کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر مشال مجھے نہیں ملی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا پھر بلاخر جیسے ہی میں ان کے گھر پہنچا تو سامنے کا منظر دیکھ کر مجھے لگا جیسے زمین میرے پاؤں کے نیچے سے نکل گئی ہو میری محبت اسی اور کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مذاق کر رہی تھی مشال کا قدر اکمل اس کے بے حد قریب بیٹھا ہوا تھا اور دونوں اپس میں ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اس قرب سے میں نے اپنی انکھیں بند کر لیں میں اس وقت کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے میری مزید رسوائی ہوتی میں نے خود کو قابو کیا اور مشال سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا بشار پھپھو کہاں ہے میری اواز پر وہ دونوں ایک دوسرے سے فورا دور ہو گئے جیسے انہیں کسی نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو اور مشال مجھے اپنے گھر ایا دے کر نوری طرح سے گھبرا گئی ان دونوں کی گھبراہٹ کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا اور دوبارہ مشال سے پوچھ بیٹھا اور اس نے فورا کمرے کی طرف اشارہ کیا اور میں سر ہلا کر اس کمرے کی جانب بڑھ گیا میں نہیں جانتا تھا کہ وہ دونوں ایسا کیا کر رہے تھے جو مجھے دیکھ کر اتنا زیادہ گھبرا گئے مگر میں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی کیونکہ اگر میں اس بارے میں ہی سوچتا رہتا تو مجھے بے حد تکلیف ہوتی جب میں پھوپھو اور بپا کے پاس پہنچا تو وہ دونوں مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے لقمہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے تنزیہ انداز میں کہا واہ میاں ہم تو تمہیں



تو تمہیں اپنا بیٹا سمجھتے تھے اور تم نے ہمارے ہی گھر کی لڑکی پر نظر رکھی ہوئی تھی بہت اچھے جتنا لاڈ ہم نے تمہیں دیا تم نے اج اس کا خوب سلا دیا ہے ہمیں یہ بات سنتے ہی میں فورا بھپا کے قدموں میں بیٹھ گیا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہنے لگا حقہ میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں تمہیں مشال کو دنیا جہاں کی خوشیاں دوں گا میں اسے بچپن سے جاتا ہوں اپ میرے ساتھ ایسا مت کریں اگر اپ کو میری نوکری پسند نہیں ہے تو میں اور بھی اچھی نوکری ڈھونڈ لوں گا اور بہت جلد اپنا گھر بھی بنا لوں گا میں مشال کو ہر خوشی دوں گا لیکن انہوں نے میری ایک بات بھی نہیں سنی بلکہ پھوپھو نے جو کچھ کہا اس نے میری روح کو زخمی کر دیا ان کا کہنا تھا تم جیسے لڑکے بہت ائے ہیں میری بیٹی کی زندگی میں تم جیسے لڑکے بہت ائے ہیں میری بیٹی کی زندگی میں تم جیسے دو ٹکے کے شخص کو میں اپنی بیٹی نہیں دے سکتی میں تو اس کی شادی اپنے بھانجے سے ہی کروں گی پر بہتر ہوگا کہ تم اسی وقت یہاں سے چپ چاپ دفع ہو جا مشال کا بھی یہی کہنا ہے ہے کہ وہ تم جیسے نکمے سے شادی نہیں کرنا چاہتی یہ باتیں سن کر میرا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں میں نے مزید منتیں کی مگر ان لوگوں نے مجھے ایسی تلق باتیں سنائی کہ میرا ضمیر وہاں ایک پل بھی رکنے کو دوبارہ نہ کر سکا پھر دوبارہ جب میں باہر صحن میں ایا تو دیکھا کہ مشال اور اکمل ایک دوسرے میں پوری طرح مگن تھے میں نے مشال کو مخاطب کیا اور کہا کہ مشال میں نے بچپن سے لے کر اج تک تمہارے ساتھ کون سی ایسی حرکت کی ہے کہ تم مجھ سے اتنا قطراتی ہو میں نے تو ہمیشہ تمہیں عزت دی مان دیا اپنے دل میں تمہیں ملکہ بنا کر رکھا اور تم نے میرے ساتھ یہ کیا مشال میری جان دیکھتے ہوئے کہنے لگی دیکھو فہد تمہارے پاس اتنی دولت نہیں ہے کہ تم میرے ناز نقرے اٹھا سکو میرے ایک مہینے کا خرچ اتنا ہے کہ تم اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتے اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں فورا وہاں سے چلتا بنا اور گھر سے باہر چلا ایا اپنی محبت کے منہ سے ایسی تذلیل بری باتیں سننا میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور سب سے زیادہ دکھ مجھے اس بات کا تھا کہ میری اپنی سگی پھوپھو میرے ساتھ ایسا کر رہی تھی میرے ابو کی صرف دو بہنیں تھیں اور دونوں نے اپنے رنگ خوب بکھائے تھے خیر جب میں گھر ایا تو خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا اج پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا کہ رشتے پیسوں سے چلتے ہیں اگر اپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو اپ بےکار تصور کیے جاتے ہیں میرا دم گھٹ رہا تھا اور میں مسلسل ڈیڑھ سانسیں لیتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا میرے ماں باپ بہت برے ہو چکے تھے میرے علاوہ ان کی کوئی اور اولاد نہیں تھی یعنی میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور اگر میں یہ سب کچھ برداشت نہ کرتا تو وہ دونوں کمزور جانے بہت مشکل میں پڑ جاتی وہ رات میرے لیے اذیت سے بھرپور تھی ایک ایک لمحہ مجھ پر قیامت ڈھاتے ہوئے گزرا میں نے دل سے دعا مانگی کہ یا رب مجھے اتنی کامیابیاں دے کہ سب کو بتا سکوں کہ فہد کس چیز کا نام ہے کہتے ہیں کہ جب انسان اللہ سے دل سے مانگے تو وہ ایک نہ ایک دن عطا کر ہی دیتا ہے وہ رات تو جیسے تیسے گزر گئی لیکن اگلی صبح میرے لیے قیامت بن کر ائے امی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی میں فورا انہیں ہسپتال لے کر گیا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ میری ماں سے اخری ملاقات ہوگی ہسپتال میں ان کے دل میں اچانک درد اٹھا اور ڈاکٹروں نے چیک اپ کرنے کے بعد ہی جواب دے دیا میری تو جیسے دنیا ہی اجر کر رہ گئی میری ماں مجھے روتا ہوا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اس بے حس دنیا سے چلی گئی میں ہسپتال کے کوریڈور میں چیخ چیخ کا رو رہا تھا مجھے لگا تھا کہ کم از کم میری پھوپھو اور پھپا ماں کی تدفین پر ضرور ائیں گے مگر ان کی بے حسی کی انتہا تب ہوئی جب انہوں نے ہمارے گھر میں جھانکنا تک ضروری نہیں سمجھا میری ماں کے صدمے سے میرے باپ کی حالت بھی بہت غیر ہو گئی تھی وہ امی کے بغیر زندگی نہیں گزار پا رہے تھے کیونکہ ان دونوں کی لو میرج ہوئی تھی 15 دن بعد ابا کو بھی اماں کی طرح ہی دل کا درد ہوا اور میں انہیں ہسپتال لے کر دوڑا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ دے میرے ماں باپ میری زندگی کا محور تھے اور دونوں میرے ہاتھوں میں ہنستے کھیلتے دنیا سے رخصت ہو گئے مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے میری پوری دنیا اجڑ چکی تھی محلے والوں نے میرا بہت ساتھ دیا خاص طور پر میری خالہ نے مجھے سنبھالا لیکن جس سے میں نے امیدیں رکھی تھیں وہ لوگ کبھی ہمارے گھر کا حال تک جان لینا ہے امی کے انتقال پر تو پھر بھی کچھ سمجھ اتا تھا کہ وہ پرائے گھر سے ائی تھی شاید پھپو اس لیے نہیں ائی مگر ابا کے انکار پر تو حکموں کو ہر صورت انا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایک قدم بھی ہمارے گھر کی طرح نہیں بڑھایا میرے لیے وہ دن کسی عذاب سے کم نہیں تھے میں نے امی اور ابا کی زندگی میں ہی بیرون ملک نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی تھی میری خواہش تھی کہ میں باہر جا کر ڈھیر سارا پیسہ کماؤں اور پھر مشال اور امی کو لے کر ایک اچھے گھر میں رہوں اور پھر ابا کے ساتھ حاجیہ عمرے پر چلا جا مگر یہ سب



محلے والوں نے میرا بہت ساتھ دیا خاص طور پر میری خالہ نے مجھے سنبھالا لیکن جس سے میں نے امیدیں رکھی تھی وہ لوگ کبھی ہمارے گھر کا حال تک جاننے نہ ائے امی کے انتقال پر تو پھر بھی کچھ سمجھ اتا تھا کہ وہ پرائے گھر سے ائی تھی شاید پپو اس لیے نہیں ائی مگر ابا کے انکار پر تو ٹکوں کو ہر صورت انا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایک قدم بھی ہمارے گھر کی طرح نہیں بڑھایا میرے لیے وہ دن اسی عذاب سے کم نہیں تھے میں نے امی اور ابا کی زندگی میں ہی بیرون ملک نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی تھی میری خواہش تھی کہ میں باہر جا کر ڈھیر سارا پیسہ کماؤں اور پھر مشال اور امی کو لے کر ایک اچھے گھر میں رہوں اور پھر ابا کے ساتھ حاجی یا عمرے پر چلا جا مگر یہ سب خواب ادھورے رہ گئے میری محبت تھی میرے ہاتھ سے جا چکی تھی اور ماں باپ بھی مجھ سے بچھڑ چکے تھے اسی دن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب اس زمین سے بہت دور چلا جاؤں گا جہاں اپنی ہی میرے ساتھ نہیں یہاں رک کر میں کیا کرتا کہتے ہیں کہ جب انسان اللہ سے مانگتا رہتا ہے تو اللہ اس کی جھولی بھر ہی دیتا ہے ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا امی اور ابا کے انتقال کے تقریبا 20 دن بعد میری بیرون ملک میں نوکری پکی ہوگی اور کپڑی نے مجھے بلایا ضروری کاغذات اور چند کام نمٹانے کے بعد میں بیرون ملک جانے کے لیے تیار ہوا میری خالہ نے میری بہت منتیں کی کہ میں نہ جاؤں مگر میں نے انہیں گلے سے لگا کر کہا کہ جب یہاں پر اپنے نہیں ہیں تو میں یہاں رہ کر کیا کروں گا میں نے انہیں تسلی دی کہ میں کچھ عرصے بعد واپس ا جاؤں گا اور اپ پریشان نہ ہوں اس پر انہوں نے تڑپ کر کہا کیا میں تمہاری اپنی نہیں کیا میں تمہارا کوئی خاندان نہیں کیا میں تمہاری رشتہ دار نہیں ہوں یہ بات سن کر میرا دل بھا رہا ہے میں نے انہیں سینے سے لگا کر اپنی ماں کا لمس محسوس کیا وہ میری ماں کی چھوٹی بہن تھی وہ شاید اسی لیے خالہ سے مجھے ماں جیسی خوشبو اتی تھی میں نے انہیں یقین دلایا کہ اگر کبھی بھی انہیں میری ضرورت پڑی تو میں ایک فون کار پر ان کے سامنے حاضر ہو جاؤں گا پھر میں خالہ کا ماتھا چوم کر اپنی سرزمین کو ہمیشہ کے لیے الودا کہہ گیا اب بھی مجھے امید تھی کہ شاید مشال اور اس کے والدین مجھ سے ملنے کے لیے ائیں گے مگر جب وہ میرے ماں باپ کے انتقال پر نہیں ائے تو مجھ سے ملنے کیسے ا جاتے ہیں میں اپنے اس وہم پر کھول کر ہنسا ایئرپورٹ پر مجھے چھوڑنے صرف میری خالہ ائی باقی خاندان کا کوئی فرد وہاں نہیں تھا میں خاموشی سے پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا بسا وہاں جا کر ابتدا میں مجھے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کسی سے بھی میری زیادہ نہیں بنتی تھی کیونکہ زیادہ تر لوگ اپنے ہی ہم وطنوں سے دوستی کرنے کو ترجیح دیتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرے کام کی اہمیت بھی بڑھتی چلی گئی چاندی دنوں میں میرے کام کی وجہ سے انہوں نے میری پروموشن کر دی اور مجھے ایک اعلی عہدے پر فائز کر دیا میرے اعلی عہدے پر فائض ہوتے ہی اب ہر کوئی مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا مگر میرے اندر کی خوشیاں جیسے مر چکی تھی اب مجھے کسی میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی میں بس اپنے ہی خون میں بند ہو کر رہ گیا تھا صبح کام پر جاتا اور رات کو واپس ا کر سیدھا اپنے کمرے میں سو جاتا وقت گزرتا گیا اور میرے پاؤں وہاں مضبوطی سے جم گئے اب مجھے وہاں رہتے ہوئے تقریبا پانچ سال ہو چکے تھے اس دوران میری بات چیت پس خالہ سے ہی ہوتی تھی جب وہ کبھی پھوپھو کا ذکر کرنے لگتی تو میں انہیں خاموش کروا دیا کرتا تھا کہ اپ کے منہ سے اس خاندان کے بارے میں ایک لفظ بھی میں نہیں سنوں گا اگر انہیں ان کے بارے میں بات کرنی ہے تو میں فون رکھ دوں گا مجھے مجھ سے اس قدر نفرت ہوگی تھی کہ اگر وہ میرے سامنے ہوتے تو شاید میں ان کو دنیا سے ہی رخصت کر دیتا میں نے یقین کر لیا تھا کہ میرے ماں باپ کی موت کا ذمہ دار پھپھو اور پھپا ہی ہیں جن کا رویہ برداشت کرتے کرتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے وقت یوں ہی گزرتا رہا اور اب مجھے وہاں رہتے ہوئے اٹھ سال ہو گئے تھے روزانہ کی ایک ہی روٹین سے میں اتنا تنگ ا چکا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں پاکستان واپس جا کر اپنا کاروبار شروع کروں گا کیونکہ میں نے یہاں کافی پیسہ کما لیا تھا لہذا پھر میں اپنی کمپنی کو چھوڑ کر اپنی سرزمین پاکستان واپس لوٹ ایا تقریبا اٹھ سال بعد جب پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو در


کر اپنا کاروبار شروع کروں گا کیونکہ میں نے یہاں کافی پیسہ کما لیا تھا لہذا پھر میں اپنی کمپنی کو چھوڑ کر اپنی سرزمین پاکستان واپس لوٹ ایا تقریبا اٹھ سال بعد جب پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو درد کی شدت سے میرا دل بھار ایا یہاں وہ جگہ تھی جہاں خالہ نے مجھے چھوڑا تھا تب میں بہت کمزور تھا مگر اب مجھ میں اتنی ہمت و طاقت اگئی تھی تو میں اپنے بلبوتے پر کسی بھی لڑکی سے شادی اور کسی بھی ادمی کو خرید سکتا تھا میں نے اسی وقت ایئرپورٹ سے ٹیکسی بک کی اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا مگر میرا دل بہت اداس تھا کیونکہ میں جانتا تھا اس گھر میں اب وہ نہیں ہے جو کبھی میری دنیا ہوا کرتے تھے میں نے ٹیکسی والے سے کہا کہ پہلے قبرستان کی طرف چلیں کیونکہ سب سے پہلے میں اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتا تھا قبرستان پہنچ کر والدین کی قبروں پر سورہ فاتحہ پڑھی اور بہت سی باتیں کر کے دل کو کوئی سکون دیا اور پھر گھر کی جان بروانہ ہو گیا گھر پہنچتے ہوئے راستے دیکھ کر مجھے اپنا پرانا وقت یاد انے لگا میری انکھیں انسوں سے تر ہو گی ٹیکسی والے نے جب مجھے میرے گھر کے پاس اتارا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ محلے کا پورا منظر بدل چکا تھا میرے گھر کے سامنے جو چوٹی سی ریڑی تھی وہ اب ایک جنرل سٹور بن چکی تھی اور گھر کے قریب ایک اچھا سا واٹر پمپ بھی لگ چکا تھا یہ سب ترقی دیکھ کر میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگئی میں نے اپنے گھر کی طرف رخ کیا تو جیسے میرا پورا بچپن کسی فلم کی طرح میری انکھوں کے سامنے گھومنے لگا وہ لمحے بھی مجھے یاد ائے جب میں نے اسی گھر سے اپنے ماں باپ کے جنازے کو کندھا دیا تھا انسو صاف کیے اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ہر کونے سے مجھے اپنے ماں باپ کی اوازیں محسوس ہو رہی تھی کہیں امی کی محبت بھری پکار سنائی دیتی تو کہیں ابا کی ڈانٹ کی گونج وہیں سے امی کے کہہ کے کی اوازیں ارہی تھی تو کہیں ابا کا سخت لہجہ سنائی دے رہا تھا میں نے ضبط کرتے ہوئے انکھیں بند کی اور اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھا دیا ابھی مجھے گھر ائے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ خالہ بھی فورا میرے پاس پہنچ گئی انہیں دیکھ کر میرے دل کو وہ سکون ملا اور میں نے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا اعلی سے لگ کر ہمیشہ مجھے اپنی ماں کی خوشبو محسوس ہوتی تھی شاید اس لیے کہ وہ میری ماں کی چوٹی بہن تھی انہوں نے مجھے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی لیکن میں نے ان کے ساتھ جانے سے منع کر دیا کیونکہ لمبی فلائٹ کے بعد میرا جسم سگن سے چور تھا دیکھیے خالہ نے کہا کہ پہلے تم میرے ہاتھوں سے بنا کھانا کھاؤ گے اس کے بعد ہی ارام کرو گے پھر ان کی ضد کے اگے ہار مانتے ہوئے میں ان کے ساتھ ان کے گھر چل دیا اللہ کا گھر ہماری ہی گلی کے اخری کونے پر تھا اور میں جانتا تھا اس گلی میں ایک اور گھر بھی ہے اور وہ گھر ایسا ہے جس سے میری بہت سی تلخیاتیں جڑی ہوئی تھی پھر میں جیسے ہی اسی گھر کے سامنے پہنچا میری انکھیں بے اختیار اس دروازے کی طرف اٹھ گئی جہاں برسوں پہلے میں اپنی مشال کو چھوڑ کر گیا تھا وہاں پھوپھا مجھے ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے دکھائی دیے وہ کافی کمزور نظر ارہے تھے ان کی یوں قابل حالت رحم دیکھ کر ایک دم سے میرے دل میں بھی نرمی اگئی اور میں ان کی طرف قدم بڑھانے لگا ایسا مجھ سے اس لیے ہوا کیونکہ میں ان کی طرح بے حس نہیں تھا اور وہ میرے لیے ہمیشہ اہم تھے مجھے دیکھ کر وہ اس قدر خوش ہوئے جیسی ان کی انکھیں خوشی سے چمک اٹھی ہوں جیسے ان کے جسم میں نئی جان اگئی ہو کپا اٹھ کر مجھے گلے لگانا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں وہیں بحثیں رہنے دیا اور گھٹنے ٹیک کر ان کے سامنے بیٹھ گیا پھر انہوں نے مجھے سینے سے لگا کر دیوانہ وار میرا چہرہ چومنا شروع کر دیا پھر اچانک انہوں نے میرے اگے ہاتھ جوڑ دیے ان کا یہ عمل میرے لیے حیرت کا باعث تھا پھپا لوگ تو بہت اکڑ رکھنے والے لوگ تھے اچانک چم کر رویہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو گیا تھا یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی اس کے دوران پھوپھو بھی باہر اگئی اور مجھے دیکھ کر ان کی بھی خوشی کی انتہا نہیں تھی جیسے ان کے لیے میں کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی فرشتہ ہوں دونوں مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے پھپو نے مجھے اندر انے کا کہا اور میں بھی ان کے پیچھے اندر چلا گیا مگر اندر کا منظر دیکھ کر جیسے میری رولرز اٹھی ایسا لگا جیسے کسی نے اندر ہی اندر سے مجھے فنا کر دیا ہو میری محبت میری مثال بہت ہی ابتر حالت میں لاونج میں بیٹھی ہوئی تھی باغلوں کی طرح اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کے اس پاس بچوں کے کھلونے بکھرے پڑے تھے یہ سب دیکھ کر میرا دل تو جیسے لڑکنا ہی بھول گیا تھا میں نے حیرانگی سے اپنی خالہ کی طرف دیکھا تو انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اسی دوران میری پھوپھو میرے لیے پانی اور چائے لے کر ائے میں ان سے مشال کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا کہ اخر یہ سب کیا ہے مگر خالہ نے دھیرے دھیرے ساری حقیقت مجھ پر اشکار کر دی اسی دوران پھپو نے مجھے بتایا اتنے جاننے کے بعد ہم لوگوں نے مشال کی شادی اپنے بھانجے اکمر سے کرتی تھی لیکن افسوس اکمل ایک چالاک مکار اور خودغر شخص نکلا اس نے مشال کو بے انتہا وحنی اذیت دی اور بعد میں جب اشعار کی اولاد میں بیٹ


ذہنی اذیت دی اور بعد میں جب اشعار کی اولاد میں بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے اس بچی کو بے دردی سے مار ڈالا ایسا اس نے اس لیے کیا کیونکہ اکمل کو بیٹا چاہیے تھا مگر مشال نے بیٹی کو جنم دیا یہیں سے مشال کی بربادی کا اغاز ہوا جب جب وہ حاملہ ہوتی اور اکمل کو ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلتا کہ مشال کے پیٹ میں بیٹی ہے ختم کروا دیتا تھا انہی عزیزوں کی وجہ سے مشال کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور وہ پاگل ہو گئی جب اکبر نے اس کی زندگی تباہ کر دی تو اسے چھوڑ کر اپنے والدین کے ساتھ دوسرے شہر چلا گیا اور وہاں جا کر دوسری شادی بھی کر لی لیکن اس کے باوجود بھی مشال کا مرد قابل علاج تھا ہم نے شروع شروع میں اس کا علاج کروایا اور اس میں بہت بہتری بھی انا شروع ہو گئی تھی لیکن جب ہمارے پاس اس کا علاج کروانے کے لیے مزید پیسے نہ بچے تو ہم اس کا علاج اگے جاری نہ رکھ سکے اور ہم نے تو اس سے کچھ پیسے اتار لینے کے لیے بار بار تیری خالہ کے ذریعے تو اسے رابطہ کرنا چاہا لیکن تو تو ہم سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا شاید ہماری اواز سننا بھی تجھے گوارا نہیں تھی پھر علاج نہ ہونے کے سبب دوبارہ سے مشال کی حالت بگڑنا شروع ہوگی تب سے ہم اس سے سرکاری ادمیات کھلا رہے ہیں لیکن اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑ رہا لیکن ابھی بھی اگر ہم اس کا اچھے ہسپتال سے یا اچھے ڈاکٹر سے علاج کروا لیں تو یہ ٹھیک ہو جائے گی اور اپنی زندگی میں واپس لوٹ ائے گی اور بیٹا ایسا صرف تم ہی کر سکتے ہو اپنی پھوپھی کے منہ سے یہ سب سن کر میرے اواز گم ہو گئے تھے میں ابھی کچھ کہتا کہ میری پھوپھو اور پھوپھا میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے بات ہمیں معاف کر دو ہم نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی یہاں تک کہ تمہارے والدین کے جنازے میں بھی ہم نے شرکت نہیں کی اور ایسا ہم نے صرف اپنی انا کو اونچا رکھنے کے لیے کیا تھا اور اج ہمارا حال دیکھو ہم برباد ہو چکے ہیں ہمارے پاس کوئی بھی نہیں بچا تمہاری خالہ کبھی کبھی ہمیں ملنے ا جاتی ہیں میں نے کئی بار ان سے درخواست کی کہ میری بات فاسٹ سے کروا دو تاکہ میں معافی مانگ کر اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کر سکوں لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ تم ہم سے بات نہیں کرنا چاہتے یہ بات سن کر مجھے وہی لمحات یاد انے لگے جب خالہ مشال کا ذکر کرتی تھی اور میں فورا انہیں خاموش کروا دیتا تھا اب مجھے بے حد افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے اتنی لاپرواہی کیوں برتی تھی کیونکہ میں نے خود کو ان کے جیسا بنا لیا تھا پھر میں نے فوری طور پر اپنی اعلی ظرفی کے سبب ان سب کو معاف کر دیا اور مشال کا بھی میں نے سارا خرچ اٹھا کر بہترین ہسپتال سے علاج کروایا کچھ دن کے علاج کے بعد وہ کافی بہتر ہوگی اور حیران کنطور پر وہ حلیہ کے حساب سے پہلے جیسی ہی نظر انے لگی پھر جب مسلسل 11 ماہ کے علاج سے مشال کی حالت کافی سنبھل گئی تو میں نے سب کے سامنے اس سے بخوشی نکاح کر لیا اور اسے اپنی عزت بنا کر اپنے گھر لے ایا اور بہت جلد بشال نے بھی اپنی شرمندگی کے حساب سے نکل کر میرے پیار اور خلوص کو محسوس کرتے ہوئے وہ جلد مجھے قبول کر لیا اور میں نے بھی اپنے ماضی کی تمام تلخیاتیں بڑھا دی میں نے بھی سب کی معافی کو دیر سے قبول کیا اور اپنے بدترین ماضی کو پیچھے چھوڑ کر انہیں یقین دلایا کہ وہ اب میری زندگی میں بالکل میرے اپنوں کی طرح ہی شامل ہیں میں چاہتا تو ان لوگوں سے ان اٹھ سالوں کی اذیت کا بدلہ لے سکتا تھا جو میں نے تنہائی میں گزارے لیکن مجھے احساس ہوا کہ اس سے مجھے سوائے مزید تکلیف کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور میں مزید تکلیف چین نے کی بجائے اپنی زندگی میں خوشیاں چاہتا تھا جو کہ مجھے مشال کی صورت میں مل گئی پھر میں نے اندرون ملک رہتے ہی اپنا کاروبار شروع کر دیا اور میں نے اپنے بیرون ملک والے کام کو ہی اپنے ملک میں کچھ ملازم رکھ کر اتنا بڑھا لیا کہ اس کی کمائی سے میں اپنی ہر خواہش پوری کر سکتا تھا اللہ کے فضل و کرم سے ٹھیک تین سال بعد اللہ تعالی نے مجھے بیٹے کی نعمت سے بھی نواز دیا اور اب میں اور مشال بھرپور طریقے سے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر چاہنے والے کو اس کی محبت سے ہمیشہ کے لیے ملا دی اور کبھی بھی ان کو بچھڑنے کے دکھ سے دوچار نہ ہونے دے دوستو اس ویڈیو سے ہمیں یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ پیسوں کو رشتہ داری اور خلوص پر فوقیت دینے سے تعلقات میں سرد مہری اتی ہے اور خلوص ختم ہو جاتا ہے بے شک پیسہ ہر ایک کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اگر پیسے کو رشتوں پر حاوی کر دیا جائے تو محبت اور اعتماد کمزور ہو جاتا ہے جبکہ سچے تعلقات اور خلوص انسان کو خوشی اور سکون دیتے ہیں جو کہ پیسوں سے نہیں مل سکتا لہذا ہمیں اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اہمیت دینا چاہیے تاکہ تعلقات میں گرم جوشی اور اعتماد برقرار رہے اور اگر ممکن ہو سکے تو ایک دوسرے کی مالی معاملات میں بھی مدد کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر رشتہ دار ہی ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر بیگانوں کا ہمارے ساتھ کیسا برتاؤ ہوگا اور ہم مزید کمزور ہوتے چلے جائیں 

Post a Comment

0 Comments