ایبٹ آباد میں شادی کی تقریب کے دوران خواجہ سرا ڈانسر قتل، ساتھی شدید زخمی

 

خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا برادری ایک اور المناک واقعے کا شکار


خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں ایک شادی کی تقریب کے دوران فائرنگ کے واقعے میں ایک خواجہ سرا فنکارہ ہلاک جبکہ اس کی ساتھی شدید زخمی ہو گئی۔ یہ واقعہ صوبے میں خواجہ سرا برادری کے خلاف جاری تشدد کی ایک اور افسوسناک کڑی ہے۔

13 جون کو میرپور تھانے کی حدود میں ناری روڈ پر یہ واقعہ پیش آیا، جہاں زائبی نامی خواجہ سرا، جو کہ بھیرہ (سرگودھا) کی رہائشی تھیں اور طویل عرصے سے ایبٹ آباد میں مقیم تھیں، پرفارمنس کے دوران فائرنگ کا نشانہ بنیں۔ ان کی ساتھی بینش، جو کہ لاہور سے آئی ہوئی تھیں، گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئیں۔

حملہ آور کا جھگڑا، رقابت اور قتل

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور کی شناخت ملک تنویر صراف (اصل نام توقیر احمد) کے طور پر ہوئی ہے۔ وہ مبینہ طور پر اس بات پر ناراض تھا کہ زائبی نے رقص کے دوران اس کے حریف سے پیسے وصول کیے۔ اس پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد تنویر نے اسلحہ نکال کر زائبی اور بینش پر گولیاں چلا دیں۔

زائبی موقع پر ہی دم توڑ گئیں جبکہ بینش کو شدید زخمی حالت میں مقامی اسپتال منتقل کیا گیا۔ بینش کے بیان پر پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 اور 324 کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ضلعی پولیس افسر عمر طفیل کی ہدایت پر میرپور پولیس نے چند گھنٹوں کے اندر ملزم کو گرفتار کر لیا۔

ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزم اور مقتولہ کے درمیان ذاتی تعلقات تھے، اور حالیہ دنوں میں تناؤ اس وقت بڑھا جب زائبی کے موبائل فون میں مبینہ طور پر تنویر کی نجی تصاویر پائی گئیں۔ پولیس کے مطابق ملزم کو 16 جون تک جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔

خواجہ سرا برادری کا احتجاج، انصاف کی دہائی

واقعے کے بعد خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد نے میرپور تھانے کے باہر احتجاج کیا، سڑک بلاک کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ تاہم، برادری کے کئی افراد کو خدشہ ہے کہ یہ کیس بھی دیگر واقعات کی طرح نظرانداز کر دیا جائے گا۔

‘بیلا’ کلچر اور جنسی استحصال کا المیہ

سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر مہرُب اعوان نے اس قتل کے پیچھے موجود ایک گہری حقیقت کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق یہ قتل مذہبی تعصب یا ٹرانسفوبیا کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ “بیلا” کلچر کا نتیجہ ہے۔ ’بیلا‘ ان بااثر مجرموں کو کہا جاتا ہے جو خواجہ سرا ڈانسرز کو اپنے زیرِ اثر رکھتے ہیں اور ان سے جنسی غلامی کرواتے ہیں۔ مہرُب کے مطابق، جب کوئی خواجہ سرا اس استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس کا نتیجہ اکثر قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں 2015 سے اب تک 154 خواجہ سرا قتل

حقوقِ خواجہ سرا کی سرگرم کارکن فرزانہ ریاض نے اس واقعے پر شدید غ5zم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن مجرموں کو سزا نہ ملنے کی روایت نے صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

“2015 سے اب تک کے پی میں 154 خواجہ سرا افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، لیکن کسی ایک قاتل کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ سب کے سب بچ نکلے ہیں،” فرزانہ نے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اکثر ایسے مقدمات میں مکمل ایف آئی آر درج نہیں کرتی یا نرم دفعات لگاتی ہے، جس سے ملزمان آسانی سے بری ہو جاتے ہیں۔ اکثر اوقات متاثرہ خواجہ سرا کے خاندان خود مقدمہ درج نہیں کرتے، یا پھر “غیرت” اور مذہبی دباؤ کی بنیاد پر قاتلوں کو معاف کر دیتے ہیں۔

تحفظ صرف کاغذوں تک محدود

فرزانہ نے خیبر پختونخوا حکومت کی خواجہ سرا تحفظ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کا نفاذ آج تک عملی طور پر نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق، خواجہ سرا افراد روزانہ کی بنیاد پر ہراسانی، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرتے ہیں، لیکن انہیں کوئی محفوظ ماحول میسر نہیں۔

سرکاری ریکارڈ: انصاف کا تاریک پہلو

اگست 2024 میں صوبائی اسمبلی کو دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 سے 2023 کے درمیان خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد کے 267 کیسز رجسٹرڈ کیے گئے، مگر صرف ایک کیس میں سزا ہوئی۔ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں 17، 2020 میں 40، 2021 میں 61، 2022 میں 88، اور 2023 میں 61 واقعات رپورٹ ہوئے۔

ان بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود سزاؤں کی شرح انتہائی مایوس کن ہے۔ 22 اگست 2024 کے اسمبلی اجلاس میں اس مسئلے پر مختصر بات ہوئی، لیکن کوئی ٹھوس پالیسی یا قانونی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

Post a Comment

0 Comments